Get Updates

09 Jul 2022
تبصرہ کریں

گو کہ بات شغل میلے کی ہے، مگر کئی نام نہاد ”ٹریولرز اور ٹریکرز“ وغیرہ کی جانب سے بڑا ظالم طنز ہے۔ اور وہ یہ کہ ”مری جانے پر ہی بلندی کی وجہ سے جن کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے، وہ لوگ بھی خود کو ٹریولر کہتے ہیں“۔۔۔ وڈے ٹریولرز دی ایسی دی تیسی۔ جبکہ آپ خود کو ہلکا مت لیں۔ طبیعت کی خرابی کو لے کر چھوٹے چھوٹے ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چلیں آئیں آج بلندی کے اثرات پر کچھ بات کرتے ہیں۔ کئی پہاڑی علاقوں میں ایک اصطلاح ”ہائیٹ ہونا یا ہائیٹ لگنا“ استعمال ہوتی ہے۔ مثلاً فلاں کو ہائیٹ ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بلندی کے اثرات کی وجہ سے فلاں کی طبیعت خراب ہو چکی ہے۔ اس خراب طبیعت کو نظرانداز کیا جائے تو بات موت تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ جبکہ اس کا علاج یہ ہے کہ ←  مزید پڑھیے
Pak Urdu Installer
04 May 2022
تبصرہ کریں

جانو! چلو منظرباز کے تالاب پر نہانے اور پارٹی میں چلیں۔۔۔ نہیں رہنے دو۔ کیا معلوم وہ بھی شکاری ہو اور ہمیں تالاب کا سہانا جھانسا دے کر شکار کر جائے۔۔۔ ارے نہیں نہیں۔ اب وہ ایسا نہیں۔ اس نے ہمارے آرام و سکون کے لئے ہی اتنی محنت سے تالاب بنایا ہے اور اس کا دعوت نامہ بھی آیا ہے۔ نہ جانا اچھا نہیں لگے گا۔ تالاب پارٹی میں باقی کئی پرندے بھی آ رہے ہیں۔ خوب ہلہ گلہ ہو گا۔ نہائیں گے، ناچیں گے، گائیں گے۔۔۔ ویسے کیا کبھی کسی آزاد پنچھی اور جنگلی جانور کو اپنی موج مستی میں اڑتے، گھومتے پھرتے اور چہچاتے دیکھا ہے؟ دیکھنا اور جائزہ لینا۔ تم پر فطرت کے بڑے راز یوں آشکار ہوں گے کہ ←  مزید پڑھیے
19 Apr 2022
1 تبصرہ

نوجوان نے شغل شغل میں نشانہ باندھے(شست لئے) بغیر ہی بس بندوق کی نالی پرندے کی طرف کی اور لبلبی دبا دی۔ کرنی ایسی ہوئی کہ چھرہ پرندے کو لگ گیا اور وہ گر گیا۔ اس کا گرنا تھا کہ نوجوان نے دوست کی طرف فاتحانہ انداز میں دیکھنے کی بجائے بندوق وہیں پھینکی اور پرندے کی طرف دوڑ لگا دی۔ پرندے کو اٹھایا مگر وہ مر چکا تھا۔ حالانکہ یہ تو معمول کی بات تھی مگر اُس روز نوجوان کو ناجانے کیا ہوا۔ اچانک سے قدرت نے اس کے دل و دماغ میں کچھ ایسا اتار دیا کہ دل پر عجیب سا بوجھ پڑنے لگا۔ بس پھر اس واقعہ نے نوجوان شکاری کی ایسی حالت کی کہ آج کل وہ ←  مزید پڑھیے
28 Mar 2022
تبصرہ کریں

ماضی کے جوگیوں، مقامی لوگوں اور محکمہ جنگلات کے ملازمین وغیرہ کو چھوڑ کر یعنی بطور سیاح بہت کم لوگ اتنی دفعہ ٹلہ گئے ہوں گے کہ جتنی دفعہ جوگی منظرباز جا چکا ہے۔ اس سیروسیاحت میں ٹلہ کا چپا چپا چھان مارا مگر قسمت دیکھیئے کہ کوشش کے باوجود بھی کبھی موروں کا دیدار نہ ہوا۔ طاؤسِ ٹلہ کی فقط اک جھلک بھی نصیب نہ ہوئی۔ بس ایک دو دفعہ جنگل میں مور پنکھ ملے تو میں انہیں ہی اعزاز سمجھ لیتا۔ اور پھر حالیہ ”بہارِ ٹلہ“ کی پہلی یاترا ہوئی تو صبح فجر کے وقت جنگلوں کو نکل گیا۔ اچانک ایک جگہ مور نظر آیا تو جیسے سانسیں تھم سی گئیں، میں ساکت ہو گیا، کچھ گھبرا سا گیا۔ اور پھر افسوس! شومئی قسمت کہ ←  مزید پڑھیے
24 Feb 2022
تبصرہ کریں

صحرائے چولستان کے گھپ اندھیروں اور دہشت ناک ویرانوں میں… بھوکے پیاسے اور بھولے بھٹکے ہم چار کھوجی… کہیں کانٹے دار جھاڑیوں میں گھسنا پڑا تو کہیں ٹیلے پر چڑھ کر جائزہ لیا۔ کہیں گیڈر دم دبا کر بھاگے تو کہیں آوارہ کتوں نے راستہ روکا۔ مگر ہم بھی دھن کے پکے تھے اور راستے کے کتوں سے الجھنے کی بجائے اپنی منزل کی اور چلتے رہے۔ پچھل پیری تو نہ ملی لیکن ہمارے پیر بوجھل ضرور ہو گئے۔ اس سے پہلے کہ واقعی ہار جاتے، عمران صاحب نے زنبیل کھولی اور عیاشی کرائی۔ پانی کا وہ ایک گھونٹ آب حیات تھا صاحب۔۔۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم وہاں کیسے پہنچے اور کیونکر بھٹکے؟ جی ہاں! آپ ٹھیک پہچانے کہ ←  مزید پڑھیے