اور اب علی رضا سدپارہ بھی چل بسے

56 سال ایک ڈھلتی عمر لیکن علی رضا کو دیکھ کر نہیں لگتا تھا کہ وہ اب مہم جوئی ترک کریں گے۔ وہ برفانی بلندیوں اور گلیشیئرز سے خائف ہوں گے اور بقیہ زندگی یونہی ہماری طرح حالات کے رحم و کرم پر گزاریں گے۔

 بالآخر 1990 میں وہ موقع آ ہی گیا جب کوہ پیمائی کی ایک ٹیم گشہ بروم -1 جو کہ 8068 میٹر بلند ہے سر کرنے آئی اور علی رضا سدپارہ کو بھی انھوں نے بطور کوہ پیما شامل کیا(تصویر: اشرف سدپارہ)

ڈسٹرکٹ ہسپتال سکردو کے ICU وارڈ میں پڑے ہوئے علی رضا سدپارہ کو دیکھ کر نہیں لگتا تھا کہ وہ جلد ہار مان جائیں گے، ایسا یقین ہوتا تھا کہ وہ طرح طرح کی لگی نالیاں اور ڈرپ ایک طرف پھینک کر اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں گے اور پہاڑوں کی راہ لیں گے۔

 وہ کہاں نچلا بیٹھنے والے تھے، انہیں تو پہاڑ بلاتے رہتے ہیں اور ان کے دل و دماغ میں برف پوش چوٹیاں ہی بستی تھیں۔ انشا جی نے انہی لوگوں لئے تو کہا تھا۔

وحشی کو سکوں سے کیا مطلب

 جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا

56 سال ایک ڈھلتی عمر لیکن علی رضا کو دیکھ کر نہیں لگتا تھا کہ وہ اب مہم جوئی ترک کریں گے۔ وہ برفانی بلندیوں اور گلیشیئرز سے خائف ہوں گے اور بقیہ زندگی یونہی ہماری طرح حالات کے رحم و کرم پر گزاریں گے۔

زخمی ہونے سے کچھ دن پہلے ملاقات ہوئی تھی، وہی مسکراہٹ بھرا چہرہ، وہی روشن آنکھیں اور وہی حلاوت سے لبریز لہجہ جو ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔

 پوچھنے پر بتایا کہ K2 سر کرنے کی ایک مہم کا حصہ ہوں اور جلد بلترو چلا جاؤں گا۔ ہمیں حیرت اس لئے نہیں ہوئی کہ انہیں کوئی بھی پہاڑ زیر کرنا کونسا مشکل کام تھا وہ تو پیدائشی کوہ پیما تھے اور یہ کام وہ نسلوں سے کرتے چلے آرہے ہیں، تعلق سدپارہ سے جو تھا۔

سدپارہ گاؤں سکردو کے جنوب کی طرف دیوسائی کی دامن میں ہے۔ یہ دراصل سات چھوٹے چھوٹے گاؤں پر مشتمل ہے اور سنسکرت الفاظ ’ست پور‘ سے مشتق ہے لیکن سدپارہ زبان زد عام ہے۔

کچھ دن پہلے سدپارہ کے نمبردار غلام محمد کے پاس جانے کا اتفاق ہوا ان کے والد رستم اور دادا گل بیگ بھی نمبردار رہ چکے ہیں۔ غلام محمد نمبردار نے بھی’ ست پور‘ ہی بتایا۔ یہ گاؤں کئی لحاظ سے منفرد اور مشہور ہے۔ یہاں کے ہی ٹھیکہ دار حسن سدپارہ، ٹھیکہ دار حاجی عباس سدپارہ، ٹھیکہ دار شکور سدپارہ، ٹھیکہ دار محمد سدپارہ، ٹھیکہ دار حاجی غلام سدپارہ، محمد حسین سدپارہ وغیرہ نے کاروباری دنیا میں بڑا نام کمایا اوراب بھی کئی نامور ہیں۔

سکردو بلتستان میں اب تو پولو کا کھیل تقریباً دم توڑ رہا ہے مگر گئے دنوں میں سکردو کے راجہ کی ٹیم بڑی زوردار ہوا کرتی تھی اور اس میں تھے سدپارہ کے کھلاڑی جن کی بڑی دھوم تھی۔

ہم نے خود ٹھیکہ دار حسن سدپارہ، شکور سدپارہ، حاجی محمد علی سدپارہ، فیض محمد سدپارہ، غلام نبی سدپارہ ، حاجی غلام محمد سدپارہ، افتخار سدپارہ کو مقپون شاہی پولو گراؤنڈ سکردو میں گھوڑوں کی ٹاپوں کے ساتھ ساتھ پولو گیند کے لئے جنگ لڑتے کئی بار دیکھا ہے۔

کیا طمطراق اور ڈھب سے یہ کھلاڑی میدان میں اترتے تھے۔ سر پر سفید روایتی اونی ٹوپیاں، چمکدار کمربند اور پاؤں میں گھٹنوں تک آنے والے لیدر کے مخصوص جوتے۔ ان کے گھوڑے قد آور ، زین میں کسے ہوئے اور شاندار ایال کے بال کھیل کے دوران لشکتی رہتے۔

سدپارہ کی تیسری بڑی شہرت کوہ نوردی کے حوالے سے ہے۔ کوہ پیمائی کا کھیل کوئی آسان نہیں، اس میں موت کا سودا سر میں سمائے رکھنا پڑتا ہے۔ لیجنڈری کوہ پیما روہنالڈ میسنر نے کیا خوب کہا ہے۔

"Without possibility of death, adventure is not possible"

اسی چیلنج کو سدپارہ کے جواں مردوں نے قبول کیا اور وہ کچھ کر کے دیکھایا کہ دنیا ششدر رہ گئی۔

سدپارہ کے گاؤں سے نامور کوہ پیما اور ہائی پورٹرز نکلے ہیں اور چہار دانگ عالم ان کی شہرت ہوئی۔

 حسن سدپارہ، صادق سدپارہ، نثار سدپارہ، محمد علی سدپارہ، ساجد سدپارہ اور پھر اپنا پیارا علی رضا سدپارہ یہ تو صرف چند نام میں نے گنوائے ہیں۔ ان سے پہلے حاجی تقی سدپارہ، حاجی محمد علی سدپارہ، حسین سدپارہ، عباس سدپارہ، علی حیدر سدپارہ وغیرہ، اب تو کوہ پیمائی اور سدپارہ نہ صرف لازم و ملزوم ہیں بلکہ بسا اوقات لگتا ہے کہ ایک کام کے دو نام ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شروع شروع میں علی رضا سدپارہ بھی دوسرے ساتھیوں کی طرح بطور پورٹر گئے پھر ہائی پورٹر لیکن ان کے اندر جو شعلہ تھا وہ وقت کے ساتھ ساتھ جولا مکھی بنتا گیا۔ انہیں کسی صورت یہ قبول نہیں تھا کہ وہ صرف کوہ پیماؤں کا بوجھ ڈھوتا رہے، وہ خود سے کچھ کرنا چاہ رہے تھے مگر کیا کرتے معاشی تنگ دستی اور سازو سامان کا بندوست نہ ہونے پر ہر بار تلملا اٹھتے۔

 بالآخر 1990 میں وہ موقع آ ہی گیا جب کوہ پیمائی کی ایک ٹیم گشہ بروم -1 جو کہ 8068 میٹر بلند ہے سر کرنے آئی اور علی رضا سدپارہ کو بھی انھوں نے بطور کوہ پیما شامل کیا۔

 اب کچھ کر دکھانے کا وقت آگیا تھا اور علی رضا سدپارہ پیچھے ہٹنے والے کہاں تھے۔ کچھ بھی ہو جائے اسے یہ پہاڑ سر کرنا تھا اور اگر نہ ہو تو پھر ہمیشہ کے لئے کوہ نوردی سے توبہ اور دیگر دنیا داری کی طرف لوٹنا تھا۔

عزم و ہمت جواں ہوں اور ولولے تازہ ہوں تو منزل آسان ہوتی ہے۔ علی رضا سدپارہ نے گشہ بروم سر کرلیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان کے قدم رکنے والے کہاں تھے پھر ایک کے بعد ایک براڈ پیک، ننگا پربت، گشہ بروم -2 ، سپانٹک، سیہ کانگری، بلترو کانگری اس کے قدموں تلے فرش راہ بنی رہی۔

 ان پہاڑوں کو وہ بار بار سر کر چکے تھے۔ K2 میں دو دفعہ 8000 میٹر بلندی تک گئے لیکن سخت موسمی حالات کی وجہ سے لوٹنا پڑا۔ اس دفعہ پر عزم تھے کہ K2 بھی ان کی فہرست میں شامل ہو گی۔ بلترو گانگری اور سیہ گانگری میں پاکستان آرمی کو نہایت بلندی پر حفاظتی پوسٹیں قائم کرنے میں بھرپور مدد کی اور دادو و تحسین وصول کی۔

پہاڑوں سے پنجہ آزمائی میں انھوں نے کبھی شکست نہیں کھائی اور ہر بار بازی جیتی مگر موت کی بازی وہ ہار گئے اور یہی سب کا مقدر ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ