نینو ٹیکنالوجی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
Jump to navigation Jump to search
قزمہ طرزیات یا نینو ٹیکنالوجی کی مستقبلیات کا ایک شاندار شکلی اظہار؛ طبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے والا ایک خلیاتی پیمانے کا روبوٹ جو خون کے سرخ خلیات کے درمیان؛ سونپے گۓ افعال انجام دینے میں مصروف ہے۔
چند اہم الفاظ

قزمہ
طرزیات
قزمہ طرزیات

nano
technology
nanotechnology

قزمہ ٹیکنالوجی (Nanotechnology) یا قزمیات (nanoscience)، ٹیکنالوجی کی ایک ایسی قسم ہے کہ جسمیں انتہائی چھوٹے یا باریک (خردبینی) پیمانے پر اختراعات اور نئی طراز (techniques) پر تحقیق کی جاتی ہے۔ آسان الفاظ میں اسی بات کو یوں بھی واضح کیا جاسکتا ہے کہ قزمہ ٹیکنالوجی، اصل میں انتہائی باریک اور ننھے ننھے آلات یا مشینیں بنانے کی ٹیکنالوجی کو کہا جاتا ہے۔ قزمہ ٹیکنالوجی کے چھوٹے پیمانے کی حد کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ ان اختراعات کی اگر پیمائش کی جائے تو یہ 0.1 تا 100 nm کے درمیان آتی ہے (nm = نینو میٹر)۔ نفاذی علوم کی اس شاخ میں نئی اختراعات کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود اختراعات اور زندگی میں استعمال ہونے والی انواع و اقسام کی اشیاء (سالماتی آلات سے لیکر مصفی زلف تک) کی انتہائی چھوٹے یا ننھے (قزمہ یا نینو) پیمانے پر طرحبندی، تالیف اور توصیف کی جاتی ہے اور پھر ان کے بہتر استعمال کے بارے میں تحقیق۔ قزمہ یا nano، کسی بھی پیمائش کا ایک اربواں حصہ ہوتا ہے، یعنی 9- 10 ۔

ادراکِ قزمہ ٹیکنالوجی[ترمیم ماخذ]

قزمہ ٹیکنالوجی فی الحقیقت ایک متعدد الاختصاصات علم ہے لہذا اس کا مکمل ادراک اس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک قاری کو ان وحید الاختصاص علوم کا صحتمند مطالعہ نا ہو جن سے قزمہ ٹیکنالوجی میں استفادہ کیا جاتا ہے۔ ان علوم میں حیاتی کیمیاء، ہندسیات، ریاضیات، سالماتی حیاتیات، ٹیکنالوجی اور طبیعیات وغیرہ چند اہم علوم ہیں۔ درج بالا علوم کے مطالعے کے بعد اور جواہر، خلیات اور سالمات کی ساخت اور ان کے نظام کے مکمل ادراک کے بعد ہی قزمہ ٹیکنالوجی کا مطالعہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

استحضارِ فطرت[ترمیم ماخذ]

قزمہ ٹیکنالوجی؛ فطرت کے بنائے ہوئے ان آلات سے بھرپور استفادہ کرتی ہے جن سے زندگی اپنی ننھی ننھی اکائیوں میں اس قدر پیچیدہ افعال انجام دیتی ہے کہ جن کو سمجھ کر انسانی عقل حیران ہوجاتی ہے، ان ننھی اکائیوں کو حیاتیات کی زبان میں خلیات کہا جاتا ہے۔ ہر جاندار خلیے کو ایک چھوٹی منی سی اور آنکھ کی طاقتِ بصارت سے باہر، ایک ایسی آلات گاہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ جو اس وقت تک انسان کے بنائے ہوئے کسی بھی جدید ترین کارخانے سے لیکر کمپیوٹر سازی آلات بنانے والے کارخانوں تک سے پیچیدہ ہے اور اس کے باوجود اس قدر کثیر مقدار میں افعال انجام دیتی ہے کہ جو بڑے سے بڑے کارخانے میں بھی انجام نہیں دیے جاسکتے [1]۔ کائنات تخلیق کرنے والے حکیم العلیم نے ایک ننھے سے خلیے میں سالمات سے بنائے ہوئے ایسے آلات رکھ دیے ہیں کہ جو آج سائنس کی ترقی کی بدولت انتہائی انہماک و برق رفتاری سے سائنسدانوں کے زیرتحقیق ہیں اور جیسے جیسے انکی ساخت کو سمجھنے کی کوششیں کامیاب ہو رہی ہیں ویسے ویسے یہ حقیقت واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ان خلیات میں موجود یہ ننھے حصے اصل میں سالماتی آلات کے طور پر ہی تصور کیے جاسکتے ہیں اور انہی کی نقل تیار کرنا قزمہ ٹیکنالوجی کی مستقبلیات پر کام کرنے والوں کا اہم ترین ہدف بن چکا ہے [2]۔

خلیے میں آخر ہے کیا؟[ترمیم ماخذ]

خلیے میں زندگی ہے۔ یہ تو وہ جواب ہوا کہ جو شائد چند اذہان کو تو کافی معلوم ہو لیکن ایک سائنس دان کے ذہن کے لیے یہ جواب ناکافی ہی نہیں بلکہ مزید سوالات ابھارنے کا موجب ہے۔ خلیے میں زندگی ہے تو کس صورت میں ہے؟ زندگی خود کیا ہے؟ اور پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس خلیے کی زندگی کا ٹیکنالوجی اور قزمہ ٹیکنالوجی میں کیا کام؟ خلیے میں یوں تو اگر ایک خردبین سے دیکھا جائے تو درون خلوی عضیات (organelles) یا یوں کہ لیں کہ خلیے کے ذیلی حصے نظر آتے ہیں، پھر جب سائنس کی ترقی نے اس قابل کیا کہ ان عضیات کو بھی کھوجا جاسکے کہ آخر یہ کیسے بنے ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ اصل میں خلیے کے یہ ذیلی حصے یا تو خود ہی بڑی جسامت کے سالمات ہیں یا پھر ان بڑی جسامت کے سالمات کا مجموعہ ہیں اور ان سالمات کو انکی جسامت کی وجہ سے سالمات کبیر (macromollecules) کہا جاتا ہے۔

خلیات میں آلات![ترمیم ماخذ]

خلیے کو عجوبہ کہنا ایک بہت چھوٹی تشبیہ ہوگی، اگر کہا جائے کہ خلیہ قدرت کا بنایا ہوا ایک ایسا اعلٰی، نفیس اور پیچیدہ شاہکار ہے کہ جس نے اپنے اندر روح کو رواں دواں رکھ کر زندگی کو ممکن بنایا ہوا ہے تو بہت مناسب ہوگا۔ خلیے کے اندر سالمات کبیر (macromollecules) سے بنے ہوئے محرکیات (engines) ہیں[3]، آلی (motors) ہیں اور مضخت (pumps) لگے ہوئے ہیں، جو باقاعدہ بجلی کی مانند توانائی سے حرکت پیدا کرتے ہیں[4]۔ اور خلیات میں لگے ہوئے بعض محرکیے یعنی انجن تو ایسے ہیں کہ جو مانند مولّد (generator) توانائی پیدا کرتے ہیں۔ ان سالمات کبیر (جو ایک کارخانے کے آلات کی مانند خلیے میں لگے ہوئے ہیں) کی اکثریت کا تعلق لحمیات سے ہوتا ہے، یعنی یہ لحمیاتی سالمات ہوتے ہیں۔

حوالہ جات و بیرونی روابط[ترمیم ماخذ]

  1. Geoffrey M. Cooper.The Cell.
  2. Philip Ball 2002 Nanotechnology 13 Natural strategies for the molecular engineer.[مردہ ربط]
  3. Powering an Inorganic Nanodevice with a Biomolecular Motor: Ricky K. Soong Science 24 November 2000. Vol. 290. no. 5496, pp. 1555 - 1558
  4. How Bacterial Flagella Flip Their Switch: Dennis Normile Science 16 March 2001 291: 2065-2067